اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
الجزیرہ ٹی وی چینل کی اینکر: اب لندن چلتے ہیں جہاں برطانوی جریدے ٹائمز نے لکھا ہے کہ برطانیہ میں یہودی نمائندوں کی کونسل ـ جو برطانوی یہودیوں کی ترجمانی کی سب سے بڑی تنظیم ہے ـ کے 36 ارکان نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے اور ان برطانوی یہودیوں کے نمائندوں نے اپنے ایک خط میں خبردار کیا ہے کہ "اسرائیل کی روح نیتن یاہو کی حکومت کے ہاتھوں شکست و ریخت سے دوچار ہو گئی ہے"۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ پٹی میں جانی نقصانات اور زندگی کی روش پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
ان نمائندوں نے لکھا ہے: ہم جس اسرائیل سے محبت کرتے ہیں اس کے مستقبل سے خائف ہیں۔
لندن سے الجزیرہ کے نامہ نگار محمد المدہون ہم سے آ ملے ہیں۔ [ان سے پوچھتے ہیں کہ] اس حوالے سے یہودی نمائندوں کے موقف اور کے اظہار خیال کی کیا اہمیت ہے؟
محمد المدہون: جی ہاں، یہودی نمائندوں کا خط بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جو برطانیہ کی یہودی کونسل کے 36 ارکان نے جاری کیا ہے۔ اور یہ کونسل ـ جیسا کہ آپ نے بھی بتایا ـ برطانیہ میں یہودیوں کی سب سے زیادہ اہم، سب سے پرانی اور سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ کونسل ڈھائی صدیوں سے بھی زیادہ عرصے سے قائم ہے اور عام طور پر اسرائیلی ریاست کی حمایت کرتی ہے اور اس کی تائید کرتی ہے۔ اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کی طرف سے مذمتی بیانات جاری کی جائیں اور اسرائیلی ریاست کے رویوں کی مذمت کرے۔ لیکن بالآخر ان ارکان نے ـ ان کے اپنے کہنے کے مطابق ـ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ علی الاعلان اس طرح کا بیان جاری کریں اور اس طرح کا تند و تیز الفاظ سے بھرپور حملہ کریں جس میں اسرائیلی وزیر اعظم اور اس کی حکومت کے بعض ارکان کی مذمت کریں اور اس کا سبب غزہ پر اسرائیلی جنگ کا دوبارہ آغاز اور مغربی کنارے میں نوآبادیوں کی توسیع اور فلسطینی معیشت پر دباؤ لانا اور اسے گھٹن سے دوچار کرنا ہے۔
صرف یہی نہیں ہے بلکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ "انہیں اسرائیل اور یہودیت کے حوالے سے ـ جو بجائے خود ایک دین ہے ـ کے سلسلے میں اندیشے لاحق ہوئے ہیں"؛ اور وہ اپنے خط میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ کہہ دیتے ہیں کہ "اسرائیل کے اقدامات اور پالیسیوں پر خاموشی اور ان سے چشم پوشی مزید ممکن اور ناقابل قبول نہیں ہے؛ اور سب کو ان پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے اور ان کی مذمت کرنا چاہئے کیونکہ [ان یہودی نمائندوں کے بقول ان پالیسیوں پر] ان کی خاموشی اسرائیلی پالیسیوں سے ضمنی موافقت سمجھی جاتی ہے؛ اور وہ اس طرح کے کسی مسئلے کو بالکل مسترد کرتے ہیں اور اس جنگ کے خاتمے اور غزہ کی پٹی میں قید اسرائیلیوں کی رہائی نیز غزہ کے رہائشیوں کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کے خواہاں ہیں؛ اور کہتے ہیں کہ "اسرائیل میں جمہوریت خطرے سے دوجار ہوگئی ہے اور اسرائیل میں عدلیہ بھی نیتن یاہو اور اس کی حکومت کی طرف سے عدالتی اصلاحات کا مسئلہ دوبارہ پیش کئے جانے کی وجہ سے سخت خطرے سے دوچار ہے"۔
یہی نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی پولیس ایک پیراملٹری تنظیم کی صورت اختیار کر چکی ہے، اور اس کا سبب قانونی ترمیمات کے وہ مسودات ہیں جنہیں اس خط میں اشتعال انگیز اور عوام کو دھوکہ دینے کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے؛ اور یہ سب [ان کے بقول] اسرائیل کی روح کی شکست و ریخت کا سبب بنتا ہے۔
اس پیغام میں مضبوط عبارات اور الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہ جنگ کے آغاز کے ان 18 مہینوں میں پہلی بار جاری ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ